دوسرا عشقِ - خاموش محبت کی سچی کہانی

دوسرا عشقِ  - خاموش محبت کی سچی کہانی

دوستوں کے ساتھ کمرے میں بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا رات کے دو بجے رہے ہیں، یار کل بازار جانا ہے کچھ شاپنگ کرنی ہے جوتے اور کپڑے لینے ہیں۔ ایک دوست نے کہا کے میں نے تو کل سونا ہے کیونکہ کل چھٹی کا دن ہے آپ اور حماد چلے جانا۔ ٹائم کافی ہو چکا تھا تین بجنے والے تھے ہم سونے کا ارادہ کیا۔



صبح دس بجے حماد کی آواز پے آنکھ کھلی اٹھو ناشتہ کرتے ہیں، میں نے جواب دیا ابھی نہیں کرنا ! حماد بولا یار اٹھ پھر بازار بھی جانا ہے۔ میں نے کہا چلو میں نہا کر آتا ہوں تم بھی تیار ہو جاو ناشتہ بازار میں ہی کرتے ہیں، ہم دونوں تیار ہو کر چل دیئے۔ حماد سے پوچھا کہاں چلیں تو حماد نے صدر کا کہا وہاں جاتے ہیں ادر سے سب کچھ مناسب قیمت پر مل جائے گا۔ ہم دونوں بس پر سوار ہو گئے حماد نے کہا موسم کافی اچھا ہے سمندر کی طرف واپسی پر چلیں گے تو ایسا نا کریں پہلے سی ویو چلتے ہیں پھر شاپنگ کر لیں گے، حماد نے کہا تو منوڑا چلتے ہیں، چلو سٹاپ آنے والا ہے بس بدلیں پھر بس تبدیل کرنے کے بعد ہم کیماڑی پہنچتے ہیں اور ایک ہوٹل میں ناشتے کے لیے مچھلی کا آرڈر دیا۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم کشتی میں سوار ہو کر منوڑا کے لیے روانہ ہو گئے۔

اب ہم منوڑا پہنچ گئے اور توڑا پیدا چل کر ہم نے سی ویو پہنچنا تھا ابھ توڑا ہی دور گئے تھے کہ میری نظر آیک لڑکی پر پڑی وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہم سے آگے جا رہے تھے، میں نے حماد س کہا تھوڑا سا تیز چل مجھے اس لڑکی کو دیکھنے کی حسرت ہو رہی ہے کچھ ہی لمحوں میں ہم ان کے ساتھ آگئے میں نے ایک نظر دیکھ تو بس دیکھتا ہی رہ گیا میں نے ایس خوبصورت لڑکی پہلے نہیں دیکھی۔ حماد نے کہا بھائی منساب نہیں لگ رہا توڑا پیچھے ہو جاتے ہیں تو ہم ان کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔ اسی طرح ہم سی ویو پہنچ گئے ابھی تک اس لڑکی کو شاید علم نہیں تھا میرا ذہن مسلسل اسی کی طرف تھا اور اس کی توجہ کا طالب گار تھا کب وہ میری طرف دیکھے، میرا سے صبر نہیں ہو رہا تھا، آخر کار کافی ٹائم کے بعد اس کی توجہ مجھ پر ہوئی اور اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور پھر اپنی فیملی کے ساتھ باتیں کرنے لگے گئی۔

اپریل کا مہینہ تھا اور ہلکی ہلکی بارشِ ہونے لگی، کہتے ہیں کہ موسم کا بھی انسان کے مزاز پر اثر پڑا ہے بس مجھے ایسا لگنے لگا کہ مجھے پیار ہو گیا ہے وہ لوگ ایک ہٹ میں بیٹھ گئے اور ہم بھی اس جگہ جا بیٹھے وہ میرے سامنے تھی اس نے پھر میری طرف دیکھا اور ہماری آنکھوں سے بات ہو شاید اس نے میرے جذبات محسوس کر لیے اور اس کی آنکھوں میں مجھے ہاں کا اشارہ مل گیا، یہ وہ لمحہ تھا میں اپنے آپ کو بہت زیادہ خوشنصیب محسوس کر رہا تھا۔

تقریباً دن کے چار بجے کا ٹائم تھا اب ہماری نظریں ایک دوسرے پر تھیں حماد نے کہا اب اس بات کر لو کسی طرح اور موبائل نمبر دے دو، اسی طرح ٹائم گزرتا گیا اور حسین سپنوں میں کھویا اس کو دیکھتا اور وہ مجھے دیکھتی شام کا ٹائم ہو گیا اور وہ لوگ واپس جانے لگے۔ اب تک ہماری بات نا ہو پائی تھی اب میں اسی کشماکش تھا کہ نمبر دے دوں ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اس نے کئی بار مڑ کے دیکھا جب بھی وہ دیکھتی میرا دل مچل جاتا۔

آخر کار وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں کشتی میں سوار ہونا تھا اب میں مایوس ہو رہا تھا حماد مجھے تسلی اور ہمت دے رہا تھا اب شام کے سات بجے رہے تھے اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے سمندر کا بہاؤ بہت تیز تھا اور کوئی بھی کشتی واپس نہیں جا رہی تھی سب لوگ پریشان تھے اب آندھرا بھی چھا گیا اور ہمارا ارادہ تھا کے ان کے ساتھ ساتھ سفر کریں گے تو کام ہو جائے گا اب آندھرا تھا وہ اپنی فیملی سے الگ بھی نہیں ہو پا رہی تھی میں اسی کشماکش لگا رہا رات کے گیارہ بجے گئے سب کو واپس جانے کی پریشانی کھا رہی تھی اور مجھے اس سے جدا ہونے کی۔ 

اتنی دیر میں ایک طرف سے روشنی نمودار ہونے لگی اور اسی کنارے کی طرف بڑھ رہی تھی کچھ لمحے گزرے ایک بڑے والا بحری جہاز کنارے کے ساتھ آلگا اور انہوں نے سب کو اس میں سوار ہونے کا کہا اور وہ لمحہ تھا میری جان جا رہی تھی انہوں نے فیملوں کو الگ اور باقیوں لوگوں کو الگ پورشن میں سوار کر دیا سب لوگ اس جہاز میں سوار ہو گئے تھے اب اگلی امید نے جنم لیا کے جب اتریں گے تو شاید کچھ ہو جائے اسی امید کے ساتھ ہم جب کیماڑی کے کنارے اترے بہت کوشش کی اس کو تلاش کرنے کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔

اس وقت رات کے ایک بجنے والے تھے اور میں حماد کے ساتھ روڈ پ کھڑا اس کی رہ دیکھ رہا تھا جب سب امیدیں ختم ہو گئیں تو حماد مجھے اسی ہوٹل پر واپس لے آیا جہاں صبح ہم نے ناشتہ کیا تھا۔ کھانے کا آرڈر دیا حماد نے اور اس امید سے ہم نے کھانا کھایا کہ کل اس کی تلاش شروع کریں گے، صبح کے چار بجنے والے تھے تو ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا اور واپس آکر میں کافی ٹائم پریشان بیٹھا رہا آج پہلی بار آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے اور اسی عالم میں نیند آ گئی۔

یہ بات 6 اپریل 2010 کی ہے آج گیارہ سال گزر چکے ہیں اور جب بھی اس خیال آتا ہے دل بج سا جاتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments