محبت ریت سی - محبت کی سچی داستان

میں روز کے معمول کی طرح آج بھی فجر کی آذان سنتے اٹھ گئی تھی لیکن میری بی جان کو مجھے دیکھ کر ہی تسلی ملتی تھی کیونکہ کے ان کا خیال تھا کہ لڑکے اگر نہیں بھی جاگتے تو خیر ہے لیکن لڑکیاں نہ جاگی تو اگے سسرال جا کر ہمارے خاندان کا ناک کٹوا دیں گی۔ روز نماز کے بعد ہم چاچا زاد بہنوں نے ناشتہ تیار کرنا ہوتا تھا ہمارا خاندان کافی بڑا ہے، میرے تین چاچا اور چار پھپھو ہیں میرے بابا بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور میرے سب چاچا کی شادی ہو چکی تھی۔


داد جان فوت ہو چکے تھے ان کے بعد میرے بابا جان نے خاندان کے بڑے ہونے کے ناطے سب کو اکٹھے رکھنے کا فیصلہ کیا اور سب بابا جان کے اس فیصلے کو بخوبی نبھا رہے تھے اور ہماری دادی جن کو ہم سب بی جان کہتے تھے بابا کے اس فیصلے سے بہت خوش تھیں، وہ ہماری بی جان کے ساتھ ساتھ ایک اچھی دوست بھی تھی۔

ہاں تو میں اپ کو بتا رہی تھی کہ ہم سب چاچا زاد مل کر ناشتہ تیار کرتیں تھیں سوائے مدھیہ کے کیو نکہ وہ ہمارے سب سے چھوٹے چاچا کیپٹن نوید حسین کی لاڈلی بیٹی تھی وہ ہمارے ساتھ باورچی خانے میں موجود ضرور ہوتی تھی لکین ایک نمبر کی کام چور تھی وہ سارے کام میں ہاتھ تک نہ لگاتی لکین کھانا میز پر رکھتے وقت اس کا انداز ایسا ہوتا کہ جیسے کوئی کام نہیں کرتا بس میں ہی کرتی ہوں۔

 ہم چاروں چاچا زاد بہن بھائیوں میں وہ سب چھوٹی تھی اور اس کا فائدہ خوب اٹھانا جانتی تھی اور میری دوسری چاچا زاد بہنوں میں نگینہ اور مومنہ تھیں میرا نام میری بی جان نے معصومہ ناز رکھا ہے اور چاچا زاد بھائیوں میں سب سے بڑے میرے بھائی صارم علی اور دانیال حیدر تھے باقی دونوں چاچا کے بیٹے عامر اور ضغیم عباس تھے، میرے دونوں بھائیوں کے علاوہ ہم سب اپنی اپنی پڑھائی مکمل کر رہے تھے ہم سب کو ناشتے کی میز پر ہی ایک دوسرے کو تنگ کرنے اور مسلے بیان کرنے کا موقعہ ملتا تھا اس کے بعد ہم سب رات کا کھانا ساتھ کھاتے تھے، ہم ہماری بی جان کے اصول کے مطابق خاموشی سے کھاتے اور شب بخیر کہہ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے آج ناشتے کے میز پر ایک الگ ہی ماحول نظر آ رہا تھا آج ضغیم جو کے ہماری کزنز ٹیم کا لیڈر تھا اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس کا آج یونیورسٹی میں پہلا دن تھا، مدھیہ کی پڑھائی مکمل ہو چکی تھی اور ہم تینوں نے ایم اے اسلامیات ایک ساتھ مکمل کیا تھا اس کے بعد اب ہم شام کے وقت محلے کے بچوں کو تعلیم دیتی تھیں۔ یہ بچے ان گھر وں سے اتے تھے جو دو وقت کا کھانا بڑی مشکل سے کھاتے تھے اس لیے ہم نے ان سے کبھی فیس نہیں لی کیونکہ ہم تینوں گھر کی ایک طرح کی روٹین سے تنگ آ جاتی تھیں لیکن جب سے یہ بچے آنےلگے تھے تب وقت کیسے گزرتا ہمیں پتہ نہیں چلتا تھا۔

میرے دونوں بھائیوں نے بابا کی کپڑوں کی فیکٹری سنبھالی ہوئی تھی عامر چاچا نوید کی طرح میڑ ک کے بعد ہی فوج میں بھرتی ہو گیا تھا عامر میرے بابا سے چھوٹے چاچا مغیث کا بیٹا ہے ضغیم نگینہ اور معصومہ تینوں چاچا حیدر کے بچے ہیں۔ زندگی بہت خوش وخرم گزر رہی تھی عامر جب بھی گھر آتا تھا ہم لوگ باہرگھومنے ضرور جاتے تھے اس دفعہ ہم سب نے مر ی جانے کا پروگرام بنایا پورے خاندان نے جانا تھا اس لئے حیدر چاچا نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈرائیور کو ساتھ لے چلتے ہیں کیونکہ خیر الدین عرف پاشا مری میں ڈرائیور رہ چکا تھا ہم لوگ اپنی ویگن پہ جانے کا ابھی سوچ رہے تھے کہ چاچا کو یہ خیال پسند آیا ہم لوگ باہر گھومنے جانے کے لیے بہت بےچین تھے کہ ہم کب نکلیں گے لیکن کس کو پتہ تھا کہ یہ سفر ہم سب کو ساری عمر روائے گا، میں نے جیسے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو میں عامر کے سامنے جانے سے گھبراتی تھی اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ میرے قریب آنے کی کوشش کرتے یا بتی نظر سے دیکھتا بلکہ کے انکو تو موبائل سے ہی فرست نہیں ملتی تھی پر میرے قدم جیسے ان کی طرف بڑھتے تھے دل بہت تیز تیز دھڑکتا میری اس کیفیت سے وہ نا واقف تھا وہ اس قدر مگن ہوتا مسیج لکھنے میں کہ اپنے اس پاس کسی کا آ نا محسوس نہیں ہوتا تھا، ہمارا مری کا سفر شروع ہوا تو بیٹھتے وقت ہم آ منے سامنے بیٹھ گئے تھے میری نظر نہ چاہ کر بھی اس کی طرف اٹھ جاتی تھی اچانک میری نظریں جب اس کی نظروں سے ملیں تو لگا کہ آج تو جیسے دل باہر ہی نکل آئے گا اس نے ایک بار سب کو دیکھا سب باتوں میں مصروف تھے پھر تھوڑا جوھک کر کہا معصومہ میر ا ایکسرے ہو گیا ہے کہ ابھی کچھ رہتا ہے میں اپنی چوری پکڑی جانے پہ بہت شرمندہ ہوئی اور وہ میری اس حالت سے لطف اٹھ رہا تھا۔

نگینہ نے مجھے آواز دی کہ تم نے جو آلو اور قیمے کے کباب بنائیے ہیں وہ ہماری کزنز ٹیم کو تقسیم کر دو تاکہ ہم پیٹ بھرنے کے بعد سب کو اپنے کان پھٹرنے والے گانے سنا سکیں ایسا میں سوچ رہی تھی اس نے صرف گانا گانے کی ہی بات کی تھی کیونکہ ضغیم اور نگینہ مل کر جان بوجھ کر ایسا گانا گاتے کہ سنتے ہی ہم لوگ ان کی منتیں کرتے کہ چپ ہو جاؤ ہم لوگ نے سفر کا بھرپور لطف اٹھایا ہم کب مری پہنچ گئے پتہ ہی نہیں چلا رات کے آٹھ بج چکے تھے اس لیے سب نے فیصلہ کیا کہ ہم سب صبح کو سیر کے لیے نکلیں گے اب سب اپنے اپنے کمروں میں چل کر آرام کرتے ہیں، صبح کو نماز کے بعد میں بالکنی میں کھڑے ہو کر موسم کا لطف اٹھ رہی تھی کہ عامر بھی ساتھ والے کمرے سے نکل کر بالکنی میں کھڑا ہو گیا میں جانے لگی تو مجھے آواز دی کہ ایک بات پوچھنی ہے تم سے میں نے کہا جی بولیں، اس جو کہا وہ سن کر میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس کاسر پھوڑ دوں صاحب نے کہا کباب اچھے بنے تھے پر اگر مصالحہ جات زیادہ ڈالتی تو اور مزہ آ تا اور میں خوش ہو رہی تھی کے آج تو اظہار محبت کر دے، پر میرے ایسے نصیب کہاں اتنے میں مدھیہ بھی آ گئی اور ہم ناشتے کیلئے تیسری منزل پر چلے گئے۔

ناشتے کے بعد ہم سب جلدی سے تیار ہوے کیونکہ کے سیر کرنے کی سب کو جلدی تھی ہم سب لڑکیاں چیئر لفٹ پہ بیٹھنے کی ضد کر ری تھیں اور لڑکے زیروہ پوائنٹ دیکھنے کی ضد کر رہے تھے آخر ہم لوگوں کی طرف کا ووٹ بی جان نے دے دیا ہم لوگ ویگن میں سوار ہوکر چیئر لفٹ والے مقام پر پہنچ گئے اور سب باری باری سواری کے لیے کھڑے ہو رہے تھے سب کی لفٹ اگے پیچھے چل رہی تھی بہت مزہ آ رہا تھا کہ اچانک لفٹ روک گئیں ہم لوگ ایک دوسرے کا دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا ہوا ہم لوگ دو گھنٹے لفٹ میں پھنسے رہے آخر کار لفٹ چل پڑی ہم لوگ سر سبز پہاڑیوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہے تھے مری میں داد جان نے ایک گھر خریدا ہوا تھا ہم نے آج وہاں روکنا تھا کیونکہ کے میرے بابا نے آج سب کو رات کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بلایا اور ہم لوگ سید ھے دادا جان کے گھر پہنچ گئے رات کے کھانے کے بعد سب بابا کے کمرے میں چلے گئے بابا بی جان امی تینوں چاچا چاچی سب بہت خوش تھے ہم حیرانگی سے ان کے چہروں کو دیکھ رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کو ایک فیصلہ سنانا ہے ہم لوگ یک زبان بولے کے جی سنائیں بی جان بولیں کہ تم لوگ اب سب شادی کے بندھن میں بندھے جانے کے قابل ہو گئے ہو ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کے صارم کے لئے نگینہ بہت اچھی بیوی ثابت ہو گی اور دانیال کے لیے مومنہ اور ضغیم تمہارے لیے میں نے مصومہ کو پسند کیا ہے ایک یہ ہی ہے جو تجھے لگام ڈالے گی بی جان کی اس بات پہ سب ہنسنے لگے۔ مجھے صدمے سے یوں لگ رہا تھا کہ سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں اس کے بعد داد نے کہا وہ سننے کے بعد ایسا لگا رہا تھا کہ جیسے مجھے زندہ دفن کر نے کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے بی جان کہہ رہی تھی کہ مدھیہ اور ہمارا عامر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو ان کی پسند کو دیکھتے ہوئے ان کی شادی کا فیصلہ کیا ہے ہم لوگوں نے سوچا ہے کہ کل اس گھر میں تم لوگوں کی منگنی کی تقریب رکھ لیتے ہیں اور جیسے ہم سب گھر پہنچے گے تو شادی کی تیاریاں شروع کردیں گے کیونکہ عامر ایک ماہ کےلئے گھر آیا ہوا ہے سب بہت خوش تھے سوائے میرے کیونکہ جس کو اپنا بنانے کے خواب میں نے دیکھے تھے وہ تو مدھیہ سے پیار کرتا تھا اور ہم سب سن کر حیران ہوئے تھے کہ سوائے بی جان کے ہم میں سے کسی کو نہیں محسوس ہوا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔

ہماری منگنی کی تقریب کل تھی سب کو اپنے اپنے منگنی کے لباس کی فکر تھی لیکن مجھے کچھ اچھا نہیں لگا رہا تھا امی اور بابا جان نے کمرے میں بلا کر پوچھا بھی کہ تم اس فیصلے سے خوش ہو میں نے کہا جی خوش ہوں کیونکہ میں اگر انکار بھی کردیتی تو بھی ان کی منگنی ہونے سے نہیں روک سکتی تھی، منگنی رسم ہو رہی تھی سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے میں بس زبردستی مسکرا کر جواب دے رہی تھی مجھے مدھیہ کی قسمت پہ رشک آ رہا تھا کہ اسے اسکی محبت مل رہی تھی۔

تقریب اپنے اختتام کو پہنچ گئی سب کو بابا جان نے کہا کہ اپنے اپنے بیگ تیار کر لو ہمیں آج شام کو گھر واپس جانا ہے ہم سب وقت پہ تیار ہو گے تو بابا جان سب کو دیکھ کر حیران ہوئے کہنے لگے کہ بچے تو منگنی کے بعد بہت سمجھدار ہو گئے ہیں ویگن میں بیٹھنے کے بعد سب نے سفر کی دعا پڑھی اور ہمارا سفر شروع ہو گیا سب بہت خوش تھے سوائے میرے کیونکہ اس سفر نے میری زندگی کی اہم خواہش چھن لی تھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ سوچ رکھا تھا کہ اگر کسی نے بھی پوچھا کہ تم کیوں چپ ہو تو کہا دوں گی کہ سر میں درد ہے ضغیم اور مدھیہ کو نہ جانے کیا سوجا وہ دونوں فرنٹ سیٹ پر چاچا پاشا کے ساتھ بیٹھ گئے راستہ کافی دشوار تھاجب اچانک سے ویگن موڑ کاٹتی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ آج تو چاچا پاشا کھائی میں گرا کر ہی دم لیں گے آخر وہی اہو جس کا ڈر تھا اچانک ایک موڑ آیا چاچا پاشا نے جیسے ہی ویگن کا موڑ کاٹا فرنٹ سیٹ پر جہاں مدھیہ اور ضغیم بیٹھے ہوئے تھے اسکا درواز کھل گیا اور مدھیہ کی چیخ بلند ہوئی ساتھ ضغیم چلا کر بولا بچاؤ اس پہلے کے ہم میں سے کوئی ان بچاتا وہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے نیچے کھائی میں گر گئے۔

چاچا نے گاڑی جھٹکے سے روکی ہم سب با آواز رو رہے تھے چاچا نوید نے یہاں کی پو لیس کو فوراً کال کی کے ہماری مدد کریں ہمارے بچے کھائی میں گر گئے ہیں ہم سب رو رو کر دعا کر رہے تھے کے وہ دونوں ٹھیک ہوں عامر بہت جذباتی ہو گیا تھا وہ چھلانگ لگانے ہی والا تھا اسے بھائی دانیال نے پکڑ لیا وہ رو رو کر کہہ رہا تھا مجھے جانے دو میری مدھیہ مر جائے گی نگینہ اور مومنہ دونوں بہوش گئی تھیں چاچی پگلوں کی طرح ادھر اودھر بھاگ رہی تھی کوئی میرے بچے کو بچا لو دونوں چاچا اپنے اپنے فون میں مگن تھے کے کوئی ایسی ٹیم مل جائے جو نیچے کھائی میں جا کر ان ڈوھنڈ سکے بابا کو ایکسپریس نیوز نے ایک ٹیم کا نمبر دیا جن کا پیشہ ہی حادثے میں گم ہونے والے اور مر جانے والوں کی لاشیں برآمد کرنا تھا وہ لوگ کال کرنے کے آدھے گھنٹے بعد ہی وہاں پہنچ گئے ان لوگوں نے کہا آپ صبر کریں اور دعا کریں۔ چودہ گھنٹے کے بعد ان لوگوں نے کال کی کے وہ دونوں مل گئے ہیں بابا نے جیسے کال سنی وہیں پر زمین پر گر پڑے اور رونے لگے ہم سب بھی رو رو کر بابا سے پوچھ رہے تھے کے بتائیں کیا بتایا ہے ان لوگوں نے بابا نے کہا ان لوگوں نے کہا ہے کے لاشیں مل گئی ہیں۔ ہم سے کوئی بھی یقین نہیں کر رہا تھا ہم سب کہہ رہے تھے کے ہو سکتا لاشیں کس اور کی ہوں پر جب ان گاڑی پہنچی اور لاشوں کو نکالا تو وہ مدھیہ اور ضغیم ہی تھے ہم سب پر تو جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا ہم لوگوں نے وہ راستہ کیسے طے کیا یہ لفظوں میں بتانا ممکن نہیں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ابھی دونوں ہنس کر بولیں گے بنا دیا نہ بیوقوف پر وہ دونوں جا چکے تھے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان کو پہنچتے ہی دفنانا پڑا کیونکہ کہ لاشیں اس حالت میں تھی کہ زیادہ دیر باہر نہیں رکھ سکتے تھے۔ دوسرے دن سوم کی دعا کروائی گئی اور غریب طبقے میں کپڑے اور کھانا تقسیم کیا گیا ایک بعد ایک دن گزرتا گیا ایک سال کے اندر بہت کچھ بدل گیا بی جان کھانا ہمارے ساتھ نہیں کھاتی تھی جب بھی وہ کھانے کے میز پر آتی تو مدھیہ اور ضغیم کو یاد کر کے رونے لگتی اس لیے بابا نے مجھ کو کو ذامہ داری دی کہ بی جان کو کھانا کمرے میں دے دیا کرو پھر ایک دن بی جان نے مجھے پوچھا کہ اگر تمہارا نکاح عامر سے کر دیں تو تم کو کوئی اعتراز تو نہیں پہلے تو میں حیرانگی سے ان کو دیکھنے لگی پھر میں نے کہا نہیں بی جان کوئی اعتراز نہیں ہم تنیوں جوڑوں کی شادی بہت دھوم دھام سے کروائی گئی۔

مزید پڑھیں: گمنام محبت-ایک افسانہ


شادی کی پہلی رات عامر کمرے میں داخل ہوا میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا یہ لمحات بہت عجیب سے ہوتے ہیں خوشی بھی ہوتی ہےایک محافظ جو تا زندگی آپ کوحفاظت کا سایہ فراہم کرتا ہے اور جسم کے اس پاک ملاپ کو سوچ کر دل گھبرا رہا ہوتا ہے جسے عامر پاس آیا اس نے سلام کیا میں نے جواب دیا پھر بیڈ پر بیٹھ کر نجانے کیا سوچتا رہا پھر کافی دیر کے بعد بولا کہ میں صرف مدھیہ سے پیار کیا ہے اس جگہ میں کسی نہیں دے سکتا میں نے گھر والوں کی خوشی کیلئے شادی تو کر لی ہے پر تم کو تمہارا شرعی حق نہیں دے سکوں گا، میں خوفیا مشن پر جا رہا ہوں شاید واپس نہ آنے کے لئے جا رہا ہوں کیونکہ کہ زندگی کی اب چاہ نہیں رہی اور شہادت میرا عشق ہے جو امید ہے اس بار ضرور پورا ہو گا میں بت بنے سن رہی تھی بولنا چاہ پر بول نہ سکی کے میرا عشق تم ہو تمہیں تمہاری منزل مل گئی لیکن میں منزل پا کر بھی نا مراد رہا گئی وہ بیگ اٹھ رہا تھا جو شاید اس نے پہلے ہی تیار کیا ہوا تھا وہ اب کہہ رہا تھا کہ گھر والوں کو وہاں جا کر حقیقت بتاؤں گا ابھی صرف یہ کہ کہہ کر جاؤں گا کہ مشن پہ جانا ایمرجنسی بلایا ہے تم سے کوئی سوال نہیں کرے گا اور سب سمجھ جائیں گے اور تماری شادی کروا دیں گے، میں آپ کو ہی چاہتی ہوں وہ ہنس کے بولا کہ شادی کے بعد سنتے آئے ہیں کہ پیار ہو میں بھی اس محبت کو دریا سمجھتی رہی پر یہ دریا ریت سی چمک رکھتا تھا پاس آنے پر پیاس نہ بحجھ پائی اور میری محبت بھی ریت سا مقدر لے کر آئی تھی جو ریت کی ماند ہاتھ سے نکل گئی۔


Post a Comment

0 Comments